حوزہ نیوز ایجنسی | مفسر و مترجم قرآن مولانا مقبول احمددہلوی سنہ1287 ھ بمطابق سنہ 1870 ءمیں سرزمین" دہلی"پر پیدا ہوۓ، آپ کے والد کا نام" غضنفر علی "تھا جواپنے زمانے کے مشہور خطیب تھے، مقبول احمد صاحب ایام رضاعت میں آغوش مادر اور سات برس کی عمر میں سایہ پدری سے محروم ہو گۓ ، آپ کی پرورش آپ کے بڑے بھائی "حفیظ اللہ" ساکن "پانی پت" نے کی ، ساتویں کلاس تک پانی پت میں تعلیم حاصل کرکے" دہلی "کا رخ کیا اور "اینگلو عربک ہائی اسکول" میں داخلہ لے لیا ، تعلیم کے ساتھ عام مطالعہ بھی کرتے رہے۔
سنہ 1858ءمیں آٹھویں کلاس پاس کی، سنہ1886ء میں اپنی تحقیق سے مذہب تشیع اختیار کیا اور اسکا اعلان جامع مسجد (دہلی)میں کرتے ہوۓ مناظرہ کا چیلنج کیا ،سنہ1887ءمیں انٹرنس کیا اورسنہ 1889ء میں مشن کالج سے ایف۔اے کا امتحان دیا،ان امتحانات میں موصوف نے پورے صوبہ پنجاب میں امتیاز حاصل کیا اور علوم دینیہ میں مولانا آفتاب حسین کی شاگردی اختیار کی۔
ایف۔اے کے بعد شادی ہو گئی اور گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے آپ تعلیم کے بجاۓ تصنیف و تالیف اور تقریر میں مصروف ہو گۓ ، اسی زمانے میں آپ کو علوم عربیہ،طب اور وظائف سے بھی دلچسپی بڑھ گئی اور تقریر میں بھی شہرت کا آغاز ہوا لیکن موصوف نے عملی سرگرمیوں کو ترک نہ کیا ۔
مدرسہ اثنا عشریہ (دہلی) کچھ عرصہ سے سرگرم عمل تھا ، سنہ 1894ء میں راجہ سید باقر علی خان والی ریاست "پنڈراول" و میر آف کوٹا "دہلی "آۓ، مدرسہ کے منتظمین کا وفد راجہ صاحب سے ملنے گیا ،راجہ صاحب وفد کے ارکان میں مولانا مقبول احمد سے بہت متاثر ہوۓ اور اپنا پرائویٹ سکریٹری تجویز کر لیا ،سنہ1902 ءمیں راجہ صاحب کا انتقال ہوا تو مولانا دہلی واپس آۓ یہاں آکر ایک اسپتال بنوانے کا ارادہ تھا لیکن مالی تعاون نہ ہونے کی وجہ سے اپنی خواہش کوعملی جامہ نہ پہناسکے ۔
آپ کی خطابت میں دہلی کی زبان، طبعی مزاح ،علمی وزن ،شیریں بیانی اور مناظرانہ اسلوب تھا ، موصوف نے خطابت کےذریعہ منبر کو نیا اسلوب دیا اور مجلس کو نیا رنگ دیا ، انگریزی علوم سے واقفیت اور فریقین کی کتابوں کے مطالعے نے ان کے بیان میں جدّت پیدا کر دی تھی آپ شیعہ خطباء میں عظیم خطیب مانے جاتے تھے ، جس وقت آپ نواب حامد علی خان کی مسجد میں وعظ کر رہے تھےتو راجہ سید ابو جعفر کا تار آیا وہ 19 رمضان کی تاریخ اور جمعہ کا دن تھا لہذا مولانا 21 رمضان المبارک کی مجلس پڑھنے فیض آباد چلے گۓ ، یہ مجلس اتنی معرکے کی ہوئی کہ مولانا شہرت و عزت کے بام عروج پر پہنچ گۓ فیض آباد ،جونپور، لکھنؤ غرض شہرت کا دائرہ وسیع ہو گیا ،نواب صاحب رامپور نے آپ کی علمی اور عملی صلاحیت دیکھی تو ریاست میں آڈٹ آفیسر رکھ لیا ،بارہ سال تک اس منصب پر قائم رہے ،اس دوران آپ مجلسیں بھی پڑھتے تھے اور نواب صاحب کی خواہش پر تفسیر وترجمہ قرآن مجید بھی لکھتے تھے جس میں مولانا اعجاز حسن بدایونی کی مدد شامل حال رہی۔
مولانا مقبول احمد نے اپنی تفسیر میں عام طور سے تفسیر صافی کو ترجیح دی هے اور بعض مقامات پر دوسری معتبر تفسیروں سے بھی استفاده کیا هے،آپ نے قرآن کا بطور کامل ترجمه کیا، حواشی میں تفسیری نکات تحریر کئے اور اس سلسلے میں روایات سے بھرپور استفادہ کیاہے ، زیادہ تر شیعہ و سنی اختلافی مسائل کو بیان کیا اور انہی مطالب پر مشتمل ایک علیحده ضمیمه بھی لکھا چونکه ضمائم کا حجم زیادہ تھا اس لئے وہ ایک مستقل جلد میں طبع هوۓ ۔
ترجمہ قرآن کا وه نسخه جو مقبول پریس کی طرف سے تیسری بار چھپا هے، اس ترجمه کے ابتدائی صفحات پر چند علماء کی تقریظات مرقوم هیں جن میں مولانا سید احمد علی؛سید کلب حسین ؛سید محمد دہلوی؛سید نجم الحسن امروہوی؛سید سبط نبی نوگانوی ؛سید محمد باقر؛سید محمد هادی؛سید آقا حسن،سید ناصر حسین وغیرہ کے اسماء سر فہرست ہیں یه ترجمه ۹۶۶ صفحات پر مشتمل ہے ۔
آپ نے ترجمه اور تفسیر لکھنے میں جیسے اصول کافی ٬تفسیر قمی ٬تفسیرعیاشی احتجاج طبرسی ٬تفسیر مجمع البیان اور تفسیر صافی وغیرہ سے استفادہ کیا ان کاترجمہ با محاوره هے، اگر چہ بعض جگہوں پر اس بات کی بھی کوشش کی ہے کہ آیات کے تحت اللفظی ترجمہ سے استفادہ کریں ۔
سنہ 1920ء میں تقریباً سو اورسنہ 1921ءمیں دوبارہ اسی تعداد میں آغا خانی حضرات کو مذہب حقّہ کی طرف لاۓ،اسی لۓ ممبئ کے حضرات آپ کے قدر دان ہو گۓ اسی زمانے میں موصوف حج و زیارات سے مشرف ہوۓ۔
مولانا مقبول احمد انتہائی ملنسار،ہمدرد اور سخی انسان تھے ،انہوں نے قومی ترقی کیلۓ تجارت ،مدارس، وظیفہ سادات و مومنین جیسے اداروں کی بڑی خدمت انجام دی۔
وعظ و تبلیغ اور دوسرے امور کی مصروفیات کے باوجود آپ نے تصنیف و تالیف میں بھی نمایاں کردار ادا کیا،ترجمہ وتفسیرقرآن مجید جو تین صورتوں میں چھپا (1) حمائل متن و ترجمہ حواشی، (2) قرآن مجید ترجمہ و حواشی،(3) قرآن مجید ترجمہ, حواشی و ضمیمہ ،مفتی مکّہ "سید احمد دحلان " کی کتاب" اسنی المطالب فی ایمان ابی طالب" کا ترجمہ،مقبول دینیات 5 حصّے، زائچہ تقدیر،فال نامہ دانیال،تہذیب الاسلام ،وظائف مقبول چودہ سورتوں اور کچھ دعاؤں کا مجموعہ اور مفتاح القرآن جن میں سے مقبول صاحب کا قرآنی ترجمہ اب تک مقبول ہے اور بکثرت شائع ہوتا رہتا ہے۔
آخر کا یہ علم و فضل کا آفتاب سنہ 1340ھ بمطابق 24 ستمبرسنہ 1921ء میں سرزمین دہلی پر غروب ہو گیا ، نماز جنازہ کے بعد مجمع کی ہزار آہ و بکا کے ہمراہ پنجہ شریف "دہلی" میں سپرد خاک کر دیا گیا ،ملک بھر میں تعزیتی جلسوں اور مجلسوں کا طویل سلسلہ قائم رہا ،آپ کی یاد میں دہلی میں "مدرسۃ القرآن "اور آگرہ میں "مقبول المدارس" کی بنیاد رکھی گئ۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج4، ص263، دانشنامۂ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2020ء۔